• Slide One
  • Slide Two
  • Slide Three
  • Slide Four
  • Slide Five
  • Slide Five
اسلام کے بنیادی خصائص
اسلام ایک دین توحید ہے۔اور درحقیقت تمام مخلوقات کی عقلیں خلق حقیقی کو ماننے اور اس پر ایمان لانے کے لئے مجبور ہیں اور اسی خالق کا نام اللہ ہے،جو صرف اور صرف اکیلا ہی عبادت کا مستحق ہے،لہذا اسی کے نام پر جانور ذبح کئے جائیں،اسی کے نام کی نزرونیاز مانی جائے اور صرف اسی سے ہی دعا مانگی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے

الدعا ء ھو العبادۃ : دعا عبادت ہی تو ہے : صحیح رواہ الترمذی
اورکسی بھی قسم کی عبادت غیر اللہ کے لئے جائز نہیں۔

اسلام تمام دنیا کے لوگوں کو اس نظریے پر جمع کرتا ہے اور فرقہ واریت اور گروہ بندی کو ختم کرکے ان تمام نبیوں پر ایمان لانا لازم ٹھہراتا ہے جو دنیائے انسانیت کے لئے بھیجے گئے تھے۔اور اس طرح تمام لوگوں کی زندگیاں منظم کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے اور حکم کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے تمام شریعتوں کو اللہ کے حکم سے منسوخ کردیا ہے لہذا ان کے طریقہ کار اور شریعت کے علاوہ کوئی اور شریعت نہیں ہے اللہ تعالی نے تمام کائنات کے لوگوں کی طرف انہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ انہیں ظالم قسم کے قوانین اور ادیان سے نکال کر عدل وانصاف اور پاکیزگی پرمبنی دین اسلام پر کار بند کر دیں۔
اسلامی تعلیمات بڑی آسان،عام فہم اور واضح ہیں،جو خرافات اور فلسفی قسم کے اعتقادات فاسدہ کو اپنے اندر قطعا جگہ نہیں دیتیں۔اور ہر دور میں ہر جگہ یکساں اور مفید اور عمل پیرا ہونے کے اعتبار سے درست ہیں۔
اسلام مادہ اور روح کو علیحدہ علیحدہ نہیں گنتا بلکہ زندگی کے ہر حصے میں روح کو مادہ سے وابستہ رکھتا ہے اور دونوں کے مجموعہ کو زندگی قرار دیتا ہے ایک کو لے لینا اور دوسرے کو چھوڑ دینا اسلامی طریقہ نہیں۔
فطری طور پر اسلام تمام مسلمانوں کو مساوی قراردیتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ کسی بھی قوم قبیلے اور ملک سے تعلق رکھنے والے ہوں۔البتہ تقوی اور پرہیزگاری عند اللہ ضرور باعث اکرام ہے۔
ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم
بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے
اسلام انسانی زندگی کو اقتصادی،سیاسی،ثقافتی اور اجتماعی ہر لحاظ سے منظم کرتا ہے اور اس طرح تمام مشکلات کا حل بتاتا ہے اسلام انسانی زندگی کو خوب منظم کرتا ہے اور زندگی کے سب سے بڑے عنصر دنیاوآخرت کی کامیابی کا بڑا سبب بھی اسلام ہی ہے اسلام نظام سے پہلے عقیدے کا نام ہے۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں اپنی تمام تر توجہ اصلاح عقیدہ پر صرف کی۔مدنی زندگی میں دولت اسلامیہ کا نظام وضع کیا۔
اسلام علم کی دعوت دیتا ہے اور خاص کر نفع بخش علمی ترقی پر تو بہت ہی زیادہ زور دیتا ہے جیسا کہ قرون وسطی میں مسلمان دنیاوی علوم کے بھی امام تھے۔مثلا ابن الہشیم اور البیرونی وغیرہ
اسلام حلال کمائی کو جائز قرار دیتا ہے جس میں کوئی ملاوٹ اور دھوکہ بازی نہ ہو اور اہل خیر کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنا مال فقرآء و مساکین اور جہاد پر خرچ کریں۔اور اس سے وہ اجتماعی عدل وانصاف اور اخوت ومحبت پر مبنی معاشرہ قائم ہوتا ہے جس کی تعلیم امت مسلمہ نے اپنے خالق سے اخذ کی ہے۔حدیث شریف میں ہے
بہتر مال وہ ہے جو نیکی اور نیک لوگوں پر خرچ ہو؛ صحیح رواہ احمد
لیکن بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ حدیث میں ہے کہ حلال مال جمع ہو ہی نہیں سکتا یہ بات بلکل من گھڑت بے بنیاد اور موضوع ہے
دین اسلام ایک مجاہدانہ زندگی کا نام ہے اسلام ہر مسلمان پر فرض قرار دیتا ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی کے لئے اپنی جان و مال اور روح سب کچھ لٹا دے، اسلام مسلمان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے زیر سایہ اس انداز سے گزارے کہ دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے
اسلامی حدودوقواعد میں رہتے ہوئے آزادی فکر کو زندہ کرنے اور فکری جمود کو ختم کرنے کا بھی تقاضہ کرتا ہے
نیز وہ غیر اسلامی افکار جنہوں نے اندر ہی اندر سے اسلام کی اصلی شکل و صورت کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور دین کے نام پر مسلمانوں میں بدعات و خرافات اور موضوع احادیث بھی ختم کرنے کا تقاضا کرتا ہے
اسلام کا تقاضہ ہے کہ حدود اسلامی میں رہکر آزادی فکر کو زندہ رکھا جائے فکری جمود کا خاتمہ ہو اور ایسے تمام افکار کو ترک کر دیا جائے جن کی وجہ سے اسلام کی اصلی شکل و صورت بگڑ گئی ہو اور مسلمانوں کی ترقی رک گئی ہو اور دین کے نام پر مسلمانوں میں جو بدعات و خرافات اور جھوٹی احادیث عام ہوگئی ہیں انہیں ترک کر دیا جائے۔


ارکان اسلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے
گواہی دینا
کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
نماز قائم کرنا
یعنی اسے تمام ارکان اور شروط کےساتھ مکمل خشوع وخضوع سے ادا کرنا
زکوۃ دینا
جب کوئی مسلمان نصاب کے مطابق سونے یا اس کے برابر کسی دوسرے زرمبادلہ کا مالک ہو جائے تو سال کے بعد اڑھائی فیصد ادا کرے گا اور نقدی کے علاوہ ہر مال میں مقدار کا تعین کر دیا گیا ہے
بیت اللہ کا حج کرنا
صحت اور مالی اعتبار سے جو شخص راستے کا خرچ اٹھانے کی استطاعت رکھتا ہو اور راستے میں امن وامان بھی ہو تو وہ عمر میں ایک مرتبہ فرضی حج ادا کرے گا
رمضان کے روزے رکھنا
روزے کی نیت سے فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے،اور جماع اور ہر قسم کی لغویات سے باز رہنا


ارکان ایمان
اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا
اس کے وجود اور وحدانیت پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکا مات پر عمل کرنا
فرشتوں پر ایمان رکھنا
کہ وہ نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور اللہ تعالٰی کے احکامات نافذ کرنے کے لئے ہیں
اس کی کتابوں پر ایمان رکھنا
تورات،انجیل،زبور اور قرآن مجید جو ان سب سے افضل ہے
اس کے رسولوں پر ایمان رکھنا
کہ سب سے پہلے رسول نوع علیہ اسلام اور ان سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے
آخرت کے دن پر ایمان رکھنا
اعمال کے مطابق لوگوں کا حساب لینے کے لئے قیامت کا ایک دن مقرر ہے
اور ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھنا
جائز اسباب اپناتے ہوئے انسان کو ہر اچھی بری تقدیر پر راضی رہنا چاہیئے کیونکہ وہ اللہ تعالٰی کے اندازے اور حکمت کے مطابق ہوتی ہے جیساکہ صحیح مسلم کی حدیث میں وضاحت موجود ہے
دعا عبادت ہی تو ہے
یہ صحیح حدیث ہے جو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اقسام عبادت میں سے دعا ایک بڑی اہم قسم کی عبادت ہے اور جس طرح نماز کسی رسول یا ولی کے لئے پڑھنی جائز نہیں اسی طرح اللہ کے علاوہ کسی رسول یا ولی سے دعا مانگی جائے تو یہ بھی جائز نہ ہوگی
یاد رکھیں
وہ مسلمان جو یا رسول اللہ یا فلاں مدد کرو کہتے ہیں یہ دعا ہی ہے اور اللہ تعالٰی کے علاوہ دوسروں کی عبادت ہے اگرچہ ان کی دلی نیت یہی ہو کہ اللہ ہی عطا کرنے والا ہے بلکہ اس کی مثال تو ایسے شخص کی ہے جو اللہ عزوجل کو بظاہر برا کہے اور کہے کہ میری نیت میں تو تعریف مقصود تھی،تو اس کی یہ بات ناقابل اعتبار ہو گی، کیونکہ اس کا کلام نیت کے خلاف ہے لہذا قول کا نیت اور عقیدے کے مطا بق ہونا انتہائی ضروری ہے
اگر ایسا نہیں ہے تو پھریہ فعل یعنی اللہ کے علاوہ دوسروں سے مانگنا شرک یا کفر ہے جسے اللہ عزوجل بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں کرے گا
اور اگر کوئی اس قسم کا مسلمان کہے کہ میری نیت رسول اور ولی سے دعا کرنا نہیں بلکہ میرا مقصد اللہ تعالٰی اور اپنے درمیان ایک واسطہ پکڑنا ہے،جس طرح میں کسی بادشاہ کے پاس بغیر واسطہ کے نہیں پہنچ سکتا تو یہ اللہ عزوجل کو ظالم بادشاہ سے تشبیہہ دینا ہے اور یہ تشبیہہ کفر تک پہنچا دینے والی ہے اللہ تعالٰی جو اپنی ذات،صفات اورافعال میں منزہ اور پاکیزہ ہے فرماتا ہے

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ دیکھتا سنتا ہے؛ سورة الشورى
جب اللہ تعالٰی کی تشبیہہ اس کی عادل مخلوق انسان کے ساتھ بھی شرک و کفر ہے تو اس تشبیہہ کی کیا کیفیت ہو گی جو آپ کسی ظالم انسان کے ساتھ دیں گے ظالم اس قسم کی جو بات کہتے ہیں اللہ عزوجل اس سےبہت بلند و بالا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشرک یہ اعتقاد تو رکھتے ہی تھے کہ اللہ تعالٰی ہی خالق اور رازق ہے لیکن وہ اولیائے کے بت بنا کر ان سے دعائیں مانگتے اور اللہ تعالٰی کے قرب کے لئے انہیں واسطہ اور وسیلہ ٹھہراتے تھے تواللہ تعالٰی ان کے اس فعل سے راضی نہ ہوا بلکہ ان کے اس واسطے کو کفر قرار دیتے ہوئے فرمایا؛

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا؛ سورۃ زمر

یہ اس لئے کہ اللہ تعالٰی بہت قریب اور خوب سننے والا ہے جس کو کسی واسطے کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں ارشاد باری تعالٰی ہے
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) قریب ہی ہوں؛ سورۃ بقرۃ
اور یاد رہے کہ مشرکین مصائب اور تکالیف کے وقت صرف اللہ تعالٰی ہی کوپکارا کرتے تھے
ارشادِ باری تعالٰی ہے؛
وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص اللہ ہی کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے اللہ) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں گے؛ سورۃ یونس

پھر آسانی اور خوشحالی میں اولیائے کرام کو پکارا کرتے تھے جو مجسموں کی شکل میں ان کے پاس موجود تھے،تو قرآن پاک نے ان کے اس فعل کو بھی کفر قرار دیا

چناچہ بعض ان مسلمانوں کے لئے کیا جواز ہے؟ جو ہر غمی،خوشی،تنگی،تکلیف کے وقت رسولوں،ولیوں اور نیک لوگوں کو پکارتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں؟

کیا یہ لوگ اللہ تعالٰی کا یہ فرمان نہیں پڑھتے؟

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے، سورۃ الاحقاف

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جن مشرکین کا تذکرہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے وہ پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کو پکارا کرتے تھے اور یہ سمجھنا غلط ہے اس لئے کہ جن اصنام کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے وہ نیک آدمی ہی تھے جن کے مجسمے بنا لئے گئے تھے جیسا کہ سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے
اور انہوں نے کہا کہ ہر گز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو ،اور نہ چھوڑو ود اور سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو ،سور ۃ نوح

اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے
یہ قوم نوح علیہ السلام کے نام ہیں جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے قوم کو وسوسہ میں ڈالا کہ جن جگہوں پر وہ مجلس فرمایا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تیا رکر کے نصب کرو!انہوں نے ایسا ہی کر دیا،لیکن ! ان کی عبادت کرنے سے باز رہے اور جب یہ لوگ بھی فوت ہو گئے اور ان مجسموں کی حقیقت کا علم بھی جاتا رہا تو بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کی عبادت شروع کر دی۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو پکارنے والے لوگوں کی تردید میں ارشاد فرمایا
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا
یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے؛ سورۃ اسراء

امام ابن کثیر رحمتہ علیہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو جنوں کی عبادت کیا کرتے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں پکارا کرتے تھے تو بالآ خر جن مسلمان ہو گئے ،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام اور فرشتوں کو پکارا کرتے تھے ،بہر حال جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی نبی یا ولی کو پکارتے ہیں یہ آیت ان کی تردید کرتی ہے

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے مدد طلب کرنا جائز ہے ان کا کہنا ہے کہ حقیقی مددگار تو اللہ ہی ہے انبیاء اور اولیاء سے مجازی طور پر مدد طلب کی جاتی ہے جس طرح کہا جاتا ہے کہ مجھے اس دوا اور ڈاکٹر سے شفا ہوئی ہے یہ سراسر غلط ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس فرمان سے اس نظریئے کی خوب تردید ہوتی ہے

الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے رستہ دکھاتا ہے اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے؛ سورۃ شعرآء

غور فرمائیں ہر آیت میں ضمیر ھُوَ سے تاکید کر دی گئی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہدایت ،رزق اور شفا دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے دوسرا کوئی نہیں ہے
پھر دوا تو سبب ہے ،شفا دینے والی ہر گز نہیں!
یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ایک ہی مرض میں مبتلا دو مریض طبیب کے پاس آتے ہیں ،طبیب دونوں کو ایک ہی دوا دیتا ہے ،ان میں سے ایک مریض شفا یاب ہو جاتا ہے ،دوسرے کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا ،اگر دوا میں ہی شفا ہے تو دوسرے کو کون سی چیز مانع ہے ،صحت یاب کیوں نہ ہوا؟

بہت سے لوگ مردہ اور زندہ شخص سے مدد طلب کرنے میں فرق نہیں کرتے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
زندے اور مردے ہر گز مساوی نہیں ہیں سورۃ فاطر

اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ
اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اُسے مدد کے لئے پکارا،القصص

دراصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک شخص نے دشمن سے اپنی جان چھڑانے کے لئے مدد طلب کی ،تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی یوں مدد کی
فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ
موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ایک گھونسا دے مارا اور اس کا کام تمام کر دیا،القصص

لیکن! مردہ شخص سے تو مدد طلب کرنا بالکل جائز نہیں ہے اس لئے کہ وہ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہی نہیں ہے اور بالفرض اگر سن بھی لے تو جواب نہیں دے سکتا،کیونکہ اس میں اتنی قدرت ہی نہیں!
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کرسکیں۔ اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کردیں گے۔ اور (خدائے) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا ؛ فاطر

اور قرآن مجید کی یہ آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ مردوں سے مدد مانگنا شرک ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
اور وہ ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے بھی خالق نہیں ہیں،مردہ ہیں ناکہ زندہ،اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا،النحل

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگ انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے سفارش کی درخواست کریں گے ،یہاں تک کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمیں اس تنگی سے نجات دے ،آپ فرمائیں گے بس،میں ہی اس کا اہل تھا پھر عرش الہٰی کے نیچے سجدہ میں پڑ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے آسان اور جلد حساب لینے کی درخواست کریں گے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کا مطالبہ کیا جائے گا تو آپ زندہ ہوں گے ،آپ لوگوں کے ساتھ اور لوگ آپ کے ساتھ باہم گفتگو کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں کہ وہ ہماری مشکلات کو آسان کر دے ،تو آپ یہ سفارش کریں گے ،میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں

مردہ اور زندہ سے دعا کی درخواست کرنے میں سب سے بڑا فرق اور دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ہے کہ جب ان کے زمانہ میں قحط پڑ گیا تھا تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے درخواست کی تھی کہ آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگیں، صحیح بخاری
لیکن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہو جانے کے بعد ان سے کسی قسم کی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کی درخواست نہیں کی

بعض اہل علم کا خیال ہے کہ وسیلہ پکڑنا بلکل ایسا ہی ہے جیسے مدد طلب کرنا جب کہ ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، وسیلہ پکڑنا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بالواسطہ کو ئی چیز طلب کی جائے مثلا آدمی کہے ،اے اللہ ہم تیری اور تیرے رسول کی محبت کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہماری مشکلات دور فرما،تو یہ جائز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے مدد طلب کرنا قطعا جائز نہیں ہے جیسے کوئی شخص کہے ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مشکلات دور فرمائیں،تو یہ نا جائز اور بہت بڑا شرک ہے

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق
قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا
کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار ہی کو پکارتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا؛ سورۃ جن

اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
تجھے جب بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگ اور جب مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے طلب کر
امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو روایت کر کے حسن صحیح کہا ہے

شاعر کہتا ہے
میں اللہ ہی سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہماری مشکلات دور کرے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں ہے



















صرف قرآن و سنت کی اتباع کریں اور بدعات سے بچیں
بدعات کی دو قسمیں ہیں
بدعات دنیاوی ،بدعات دینی
اور بدعت دنیاوی کی پھر دو قسمیں ہیں
بدعت سیۂ ،جیسا کہ سینما ،ٹیلیویژن ،ریڈیو اور اس قسم کی اخلاق اور معاشرے کو تبا ہ کرنے والی دوسری چیزیں اور موجودہ فلموں سے جو نقصان ہو رہا ہے ،سب کو معلوم ہے ھاں،ان چیزوں کو اگر معاشرے کی بھلائی ،بہتری،خیر خواہی اور اصلاح کے لئے استعمال کیا جائے تو پھر اور بات ہے اور دنیاوی فائدے کی خاطر اگر نئی چیزیں ایجاد کی جائیں تو اسے بدعت حسنہ کہیں گے ،جیسے ہوائی جہاز،موٹر کار،ٹیلیفون اور اس قسم کی دوسری مفید چیزیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے تحت
تم اپنے دنیاوی معاملات میں مجھ سے زیادہ تجربہ رکھتے ہو، رواہ مسلم

بدعات دینی
وہ ہے کہ جس فعل پر کتاب اللہ اور صحیح حدیث کی کوئی دلیل نہ ہو،اور یہ بدعت عبادات اور دین میں ہوتی ہے یہی وہ بدعت ہے جس کی اسلام نے مذمت کی ہے اور گمراہی کا حکم لگایا ہے

بدعتی قسم کے مشرکین کی مذمت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ
کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریک باری تعالیٰ رکھتے ہیں جو ان کے لئے من گھڑت دین وضع کرتے ہیں جس کی اللہ نے انہیں اجازت نہیں دی،شوری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے،رواہ مسلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
دین میں نئے نئے طریقہ ء کار اختیار کرنے سے بچو،اس لئے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ۔رواہ ترمذی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
یقیناًاللہ ہر بدعتی کی تو بہ روکے رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ خود اس بدعت سے باز آجائے،رواہ طبرانی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں

امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
جس شخص نے اسلام میں اچھی سمجھ کر بھی کوئی بدعت جاری کی اس شخص کا ذاتی خیال یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت پہنچانے میں خیانت کی ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں
آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے، سورۃ مائدۃ
لہذا جو چیز اسلام مکمل ہونے کے دن اسلام میں شامل نہیں تھی وہ اب کیسے ہو سکتی ہے

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
دین اسلام میں جس شخص نے کوئی اچھا کام شروع کیا اس نے شرع میں اضافہ کیا ،اگر دین اسلام میں اچھے اچھے نئے کام شروع کرنا جائز ہوتے تو اہل ایمان سے بڑ ھ کر اہل عقول یہ کام بطریق احسن ادا کرتے اور اگر دین اسلام کے ہر معاملہ میں اچھے اچھے نئے کام شروع کرنا جائز قرار دے دیئے جائیں تو پھر ہر شخص اپنے لئے ایک نئی شرع تیار کر لے

امام غضیف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جہاں کوئی بدعت ظہور پذیر ہوتی ہے تو اس کی جگہ سے ایک سنت اٹھالی جاتی ہے

حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کسی بدعتی کی صحبت اختیار مت کر کہ تیرا دل بیمار ہو جائے گا

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ہر وہ عبادت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے ادا نہیں کی تم بھی نہ کرو

بدعات کی بہت زیادہ قسمیں ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں
ولات نبوی کے دن محفلیں منعقد کرنا،اور معراج کی رات اور نصف شعبان کی رات عبادت خصوصی کا اہتمام کرنا
رقص وسرودر چانا،تالیاں بجانا،اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ڈھول بجانا اور اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ کو تبدیل کر کے بآواز بلند آہ،اہ ،آہو،ہی کرنا
نوحہ و ماتم کی مجلسیں قائم کرنا اور کسی شخص کی موت پر قرآء حضرات کو بلا کر قرآن خوانی کروانا وغیرہ وغیرہ
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقِ حسنہ
آپ کا اخلاق قرآن مجید ہی تھا،ہر شخص سے قرآن پاک کے سبب راضی رہتے اور اسی کی وجہ سے ناراض ہوتے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہ لیتے اور نہ ہی خفا ہو تے، ہاں جب حرمات اللہ کی توہین کی جاتی تو پھر اللہ تعالیٰ کے لئے اظہار خفگی فرماتے
آپ تمام لوگوں سے بڑھ کر زبان کے سچے ،کفالت کے اعتبار پر پورا اترنے والے ،طبیت کے نرم،معاشرے میں مل جل کر رہنے میں ممتاز، کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر حیادار راستوں میں نگاہ نیچی رکھنے والے،فحش گو اور لعن،طعن کرنے والے قطعا نہیں،برائی کا بدلہ برائی سے بھی نہ دیتے بلکہ در گزر سے کام لیتے ہو ئے معاف فرما دیا کرتے تھے، کسی سائل کو بھی خالی ہاتھ واپس نہ کرتے اگر دینے کو کچھ نہ ہو تا تو کلمہ خیر کہہ دیتے ،آپ سخت گو اور تند مزاج بالکل نہ تھے، آپ کسی بات کرنے والے کی بات ہر گز نہ کاٹتے ہاں جب کو حق سے تجاوز کرنے لگتا تو پھر اسے ٹوکتے یا اٹھ کر چلے جاتے آپ اپنے پڑوسی کی حفاظت اور مہمان کی عزت کرنے والے تھے ،ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے سر گرم عمل رہتے ، اچھے شگون پسند اور بدشگونی کو ناپسند فرماتے ،جب دو کام سامنے ہوتے اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے میں کوئی گناہ کی بات نہ ہوتی تو آپ ہمیشہ آسان کام کو اختیار فرمالیا کرتے
غمزدہ کی دلجوئی اور مظلوم کی مدد کرنا آپ کو انتہائی پسندتھا،آپ اپنے صحابہ سے محبت فرماتے ،ان سے مشورہ لیتے اور جب کو ئی نظر نہ آتا تو اس کے متعلق ساتھیوں سے دریافت فرماتے اگر کوئی بیمار پڑ جاتا تو اس کی خیر گیری کرتے کوئی سفر پہ جاتا تو خیر و عافیت کی اور جب کوئی فوت ہو جاتا تو اس کے لئے بخشش کی دعا کرتے
معذرت کرنے والے کی معذرت قبول فرماتے
معاملہ میں آپ کے حضور ہر طاقتور اور ناتواں برابر ہوتا،آپ اس طرح تحمل مزاجی سے باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص الفاظ شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا ،آپ مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے،لیکن ہر بات حقیقت پر مبنی ہوا کرتی تھی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور تواضع
آپ تمام لوگوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے اور اپنے اصحاب کے ساتھ بڑی عزت و تکریم سے پیش آتے تھے
جب کبھی مجلس میں جگہ تنگ پڑ جاتی تو آپ صحابہ کے لئے جگہ وسیع کرتے ،راستے میں جو ملتااسے سلام کرنے میں پہل کرتے ،جب کوئی مصافحہ کرتا تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ علیحدہ نہ کرتے یہاں تک کہ وہ اپنا ہاتھ علیحدہ کرتا ،آپ تواضع و انکساری میں تمام لوگوں سے آگے تھے،جن لوگوں کے پاس کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو مجلس کے آخری حصے میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے اور اپنے صحابہ کو بھی اسی بات پر عمل کرنے کا حکم فرماتے
مجلس میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کے ساتھ ایسا مساویانہ سلوک فرماتے کہ حاضرین میں سے کو ئی یہ گمان نہ کرتا کہ فلاں شخص آپ کے نزدیک مجھ سے افضل و برتر ہے جب آپ کے پاس کوئی شخص بیٹھ جاتا تو اس وقت تک اٹھ کرنہ جاتے جب تک وہ شخص خود نہ اٹھتا
ھاں،اگر آپ کو کسی کام میں جلدی ہوتی تو اس سے اجازت طلب کر لیتے آپ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ آپ کے آنے پر لوگ کھڑے ہوں

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نز دیک رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص زیادہ عزیز و محبوب نہیں تھا ،لیکن ان کی عادت مبارک یہ تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھتے تو تعظیما کھڑے نہ ہوتے ،اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں ۔مسند احمد،ترمذی یہ حدیث صحیح ہے
البتہ صاحب خانہ کے لئے مہمانوں کا استقبال کرنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اسی طرح اگر کوئی سفر سے واپس لوٹے تو اس سے معانقہ کرنے کے لئے بھی کھڑا ہونا جائز ہے

آپ کسی شخص کے ساتھ بھی ایسے انداز سے پیش نہ آتے جسے وہ ناپسند سمجھتا ہو،بیماروں کی تیمارداری کرتے،غرباء و مساکین سے محبت فرماتے ،ان کے پاس بیٹھتے اور احوال دریافت فرماتے ،کوئی فوت ہو جاتا تو جنازہ میں مکمل شرکت فرماتے ،کسی فقیر اور تنگدست کو اس کے فقرو فاقہ کے باعث حقیر نہ سمجھتے اور نہ ہی کسی جاگیردار کی جاگیرداری سے مرعوب ہوتے ،تحفے کی نعمت کو بڑا سمجھتے اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو آپ کھانے میں کبھی عیب جوئی نہ کرتے تھے،چاہت ہوتی تو تناول فرمالیتے نہیں تو چھوڑ دیتے ،ہمیشہ کھانا پینا شروع کرتے ،بسم اللہ پڑھتے اور داہنے ہاتھ سے کھاتے پیتے اور فارغ ہو کر الحمداللہ پڑھتے،خوشبو پسند فرماتے اور بدبو دار چیزوں سے نفرت کرتے مثلا کچا لہسن ،پیاز وغیرہ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور فرمایا
اے اللہ،میرے اس حج کو ریاکاری اور دکھلاوے سے پاک رکھنا،

آپ لباس زیب تن کرنے یا مجلس میں تشریف فرما ہونے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے امتیازی حیثیت نہیں رکھتے تھے،حتی کہ کوئی دیہاتی شخص حاضر ہوتا تو وہ پوچھتا ،تم میں محمد کون ہیں؟ قمیض آپ کا محبوب ترین لباس تھا،(نصف پنڈلیوں تک لمبی)خوراک اور لباس میں کبھی اسراف نہیں کرتے تھے،ٹوپی کے اوپر پگڑی باندھتے ،اور دائیں ہاتھ کی چھنگلی میں چاندی کی انگوٹھی رکھا کرتے تھے اور آپ کی گھنی ڈاڑھی مبارک تھی

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا اور مشرکین سے جہاد کرنا
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا،تو آپ نے عرب سمیت تمام دنیا کے لوگوں کو اس چیز کی دعوت دی جس میں ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی،سعادت ،فلاح اور کامیابی تھی،پہلی چیز جس کی طرف آپ نے بلایا وہ یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کی جائے اور اللہ تعالیٰ کو پکارنا بھی عبادت ہی میں شامل ہے

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا
کہومیں تو صرف اپنے رب کو ہی پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا،سورۃ الجن

تو پھر مشرکین آپ کے مخالف ہو گئے کیونکہ یہ بات ان کے بت پوجنے والے عقیدے اور اندھی آبائی تقلید کے خلاف تھی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر زدہ اور مجنوں ہو نے کے الزامات تھونپ دیئے جب کہ اس سے پہلے وہ خود ہی آپ کو صادق اور امین جیسے القابات دے چکے تھے لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کی تکالیف اور دشنام طرازیوں پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا،کیونکہ اللہ نے بھی آپ کو بایں الفاظ صبر کی تلقین فرمائی تھی

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
پس تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو اور ان میں سے کسی بد عمل یا منکرحق کی بات نہ مانو،سورۃ دہر

بعثت کے بعد آپ تیرہ سال مکہ مکرمہ میں بمع اپنے متبعین کے ٹھہرے رہے لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے اور ان کی تکالیف پر صبر و تحمل سے کام لیتے رہے ،پھر آپ بمع صحابہ کے مدینہ منورہ ہجرت کر گئے تاکہ عدل محبت اور مساوات کی بنیادوں پر ایک نئی اسلامی مملکت قائم کریں،اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی معجزات کے ساتھ امداد فرمائی،توحید باری تعالیٰ کی طرف بلانے والے اہم ترین معجزات قرآن کریم،علم،جہاد اور آپ کا اخلاق حسنہ ہیں

دنیا کے مختلف بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے اور انہیں دعوت اسلام پیش کی مثلا آپ نے قیصر کی طرف لکھا
مسلمان ہو جا سلامت رہے گا اور تجھے اللہ تعالیٰ دہرے اجروثواب سے نوازے گا اور اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے ،سورۃ آل عمران

ایک دوسرے کو رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جو علماء اپنی طرف سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا کر پیش کرتے ہیں ان کی اطاعت نہ کریں
جب ان لوگوں نے دعوت اسلام کو ٹھکرا دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت جمع کر کے مشرکین اور یہود کے خلاف جنگیں لڑیں اور بالآخر ان پر غلبہ حاصل کیا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریبا بیس غزوات لڑے،جہاد ،دعوت اسلام اور اقوام عالم کو مختلف قسم کے ظلم و استبداد سے نجات دلانے کی خاطر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بیسیوں لشکر تیار کر کے مختلف علاقوں کی جانب روانہ کئے آپ صحابہ کو تعلیم دیا کرتے تھے کہ سب سے پہلے دعوت توحید پیش کریں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی اتباع
ارشاد باری تعالیٰ ہے
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے؛ سورۃ آل عمران

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے ماں ،باپ ،اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں؛ بخاری و مسلم

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاق حسنہ ،شجاعت اور عزت و بزرگی ایسی تمام صفات جمع کر دیں ہیں جو شخص آپ کو اچانک دیکھتا وہ مرعوب ہو جاتا اور جس کی آپ سے جان پہچان ہو جاتی وہ آپ سے محبت کرنے لگتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینارسالت پہنچا دی ہے امت کی مکمل خیر خواہی اور شیرازہ بندی کی اور اپنے صحابہ کے دل توحید باری تعالیٰ سے کھول دیئے پھر اسی چیز کا ہی اثر تھا کہ انہوں نے جہاد کر کے ملکوں کے ملک فتح کئے تاکہ لوگوں کو ظالم حکمران بندوں کی بندگی سے آزاد کر کے بندوں کے رب کی عبادت میں مشغول کر دیں انہوں نے ہم تک یہ دین اسلام بدعات و خرافات سے مبرا و منزہ پہنچا دیا ہے لہذا ہمیں نہ اس میں زیادتی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کچھ کمی کرنے کی

ارشاد باری تعالیٰ ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے؛ سورۃ مائدہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
میں تو صرف اخلاقی خوبیوں کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیاہوں؛ مستدرک حاکم

یہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ ہیں آئیے ہم انہیں مکمل طور پر اپنائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے محب بن سکیں

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ایک بہترین نمونہ ہیں؛ سورۃ الاحزاب

یادرکھیں اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت کتاب اللہ اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث پر عمل کرنے اور ان کے مطابق فیصلہ دینے کا تقاضہ کرتی ہے،اور اس توحید سے محبت کرنے کا بھی تقاضہ کرتی ہے جس کی آپ دعوت دیتے رہے نیز قرآن و سنت پر عمل پیرا رہنے اور ان دونوں سے کسی دوسرے کے حکم یا قول کو مقدم نہ سمجھنے کا بھی تقاضہ کرتی ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ،بیشک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے؛ سورۃ حجرات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت میں سے یہ بھی ہے کہ اس توحید سے محبت کی جائے جس کی طرف آپ دعوت دیتے رہے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوا جائے اور جو شخص اس تو حید کی دعوت دے اس سے بھی اظہار محبت کیا جائے اور انہیں نفرت بھرے القابات نہ دیئے جائیں

اے اللہ ہمیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور سچی تابعداری اور آپ کی شفاعت عطا فرما اور آپ کے اخلاق حسنہ کے مطابق ہمارے اخلاق درست فرما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے متعلق احادیث
یقیناًمیں تم میں ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم انہیں خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے
کتاب اللہ اور میری سنت ، مستدرک حاکم؛ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے

تم پر میری اور ہدیت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت لازمی ہے اسے خوب مضبوطی سے پکڑے رکھنا؛ مسند احمد،صحیح

جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی وہ اللہ کا نافرمان ہوا؛ صحیح بخاری

میری تعریف میں اس طرح مبالغہ آرائی نہ کرنا جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مبالغہ سے کام لیا میں تو صرف ایک بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو؛ صحیح بخاری

اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو تباہ و برباد کرے کہ انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا؛ صحیح بخاری

جس شخص نے میرا نام لے کر کوئی ایسی بات بیان کی جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ شخص اپنا ٹھکانا جہنم سمجھے؛ مسند احمد ،یہ حدیث صحیح ہے

میں غیر محرم عورتوں سے کبھی مصافحہ نہیں کرتا؛ ترمذی،یہ حدیث صحیح ہے

جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی،میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ بخاری و مسلم

اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو؛ مسلم
اسلام کو ضائع اور برباد کر دینے والے اعمال
اسلام کو ضائع اور برباد کر دینے والے اعمال بلاشبہ کچھ اعمال اسلام کو تباہ و برباد اور ختم کرنے والے ہیں کہ جب کو ئی مسلمان ان میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اس نے ایسا شرک کیا جس سے اس کے سب نیک اعمال ضائع ہو گے اور وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہو گیا ،اسے اللہ تعالیٰ بغیر توبہ کے ہر گز نہیں بخشتا،مثلا اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے دعا مانگنا جیسا کہ فوت شدہ انبیاء کرام اولیا ء عظام سے دعا مانگنا یا ان زندہ شخصیات کو پکارنا جو موجود نہ ہوں

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی بنا پر
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ
اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کرسکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے؛ سورۃ یونس

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
جو شخص اس حالت میں مرا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو اللہ کا شریک سمجھ کر پکارتا رہا تو وہ جہنم میں داخل ہو گا ،صحیح بخاری

توحید باری تعالیٰ سے دل میں تنگی محسوس کرنا اور اللہ اکیلے کو پکارنے اور اس سے دعا مانگنے سے گریز کرنا
رسولوں ،فوت شدہ ولیوں یا پھر ان زندہ لوگوں کو مشکلات و مصائب کے وقت پکارنے اور ان سے مدد مانگنے سے دل میں خو شی محسوس کرنا جو موجود نہ ہوں

جیسا کہ مشرکین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں۔ اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں؛ سورۃ الزمر

یہ آیت ان لوگوں پر منطبق ہوتی ہے جو صرف اللہ وحدہ سے مدد مانگنے والوں کو وہابی کہتے ہیں اور ان سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں یہ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہابیت تو حید کی دعوت دیتی ہے

کسی رسول یا ولی کے لئے جانور ذبح کرنا
فرمان باری تعالیٰ ہے
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر،سورۃ الکوثر

یعنی نماز اور قربانی صرف اپنے رب کے لئے ہی کرو

اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
اللہ اس شخص پر لعنت کرے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے کے لئے جانور ذبح کرے ،مسلم

عبادت اور تقرب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے نذر ماننا،اس لئے کہ نذر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ماننی چاہئے

اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ ،مریم علیہما السلام نے کہا
رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا
میرے پروردگار میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہو ں وہ تیرے ہی کام کے لئے وقف ہو گا،آل عمران

عبادت اور تقرب کی نیت سے کسی قبر کے گرد چکر لگانا، اس لئے کہ طواف صرف کعبۃ اللہ ہی کے لئے خاص ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
اور اس قدیم گھر کا طواف کریں،الحج

اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں پر اعتماد اور توکل کرنا

فرمان باری تعالیٰ ہے
فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ
تو اسی پر بھروسہ کرو، اگر تم مسلمان ہو ، سورۃ یونس

عبادت کی نیت سے بادشاہ یا کسی زندہ یا مردہ بزرگ کے سامنے تعظیما جھکنا یا سجدہ کرنا
اس سے صرف وہی جاہل شخص مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ رکوع اور سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے

ارکان اسلام یا ارکان ایمان میں سے کسی ایک رکن کا بھی انکار کرنا

ارکان اسلام
جیسا کہ نماز،زکوٰۃ ،رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج کرنا

ارکان ایمان
جیساکہ اللہ تعالیٰ ،اس کے فرشتوں ،کتابوں،رسولوں ،قیامت کے دن اور ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا

اور ان کے علاوہ دوسرے وہ تمام امور جو دین اسلام کے لئے ضروری ہیں
مکمل طور پر اسلام سے ناپسندیدگی کا اظہار کرنا یا اس کی تعلیمات ،عبادات،معاملات،اقتصادی نظام اور اخلاقی قدروں میں سے کسی ایک سے بھی نفرت کرنا

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ
یہ اس لئے کہ خدا نے جو چیز نازل فرمائی انہوں نے اس کو ناپسند کیا تو خدا نے بھی ان کے اعمال اکارت کردیئے؛ سورۃ محمد

قرآن کریم کی کسی آیت ،صحیح حدیث یا احکامات اسلام میں سے کسی حکم کا مذاق اڑانا

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
کہو کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو؛ سورۃ توبہ

قرآن کریم میں سے کسی آیت یا صحیح حدیث کا جان بوجھ کر انکار کرنا
اللہ رب العزت کو گالی دینا،دین اسلام پر لعنت کرنا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا،آپ کی سیرت اور طرز زندگی کا مذاق اڑانا یا جو تعلیمات آپ دے کر بھیجے گئے ہیں ان پر تنقید کرنا،جو کہ سراسر موجب کفر ہے
اللہ کے ناموں میں سے کسی نام ،اس کی صفتوں میں سے کسی صفت یا اس کے افعال میں سے کسی فعل کا انکار کرنا جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم اور حقیقتا ثابت ہیں
وہ تمام رسول علیہم السلام جن کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ان سب یا ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنا

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ
ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے؛ سورۃ البقرۃ

اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کے خلاف فیصلہ دینا،جب کہ فیصلہ دینے والا یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ اسلام کا یہ فیصلہ نا مناسب ہے

یا وحی الہٰی کے خلاف فیصلے کو جائز سمجھے

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں؛ سورۃ المائدہ
اسلام کے علاوہ دوسروں کو فیصل تسلیم کر لے اور اسلام کے فیصلے پر راضی نہ ہویا پھر اسلام کے فیصلے سے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس کرے

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اے نبی تمہارے رب کی قسم یہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے نب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو،اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں،بلکہ سر بہ تسلیم کر لیں،سورۃالنساء

حاکمیت اعلیٰ کا حق اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو دے دینا جمہوریت و آمریت یا اس کے علاوہ ہر ان قانون سازکمیٹیوں کو تسلیم کر لینا جو دین اسلام کے خلاف قانون وضع کر تی ہیں

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ
کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا؛سورۃ شوری

اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا جیسا کہ بعض علماء سود کو حلال قرار دیتے ہیں

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام؛ سورۃ البقرۃ

اسلام کو بنیادی طور پر ختم کرنے والی تحریکوں کا ساتھ دینا اور انہیں سچا ماننا،جیسے سوشلسٹ،ماسونی یہودی،کیمونسٹ اور ملحد قسم کے بے دین لوگ، وطن پرست یا قومی تعصب کی بنیاد پر غیر مسلم عربی کو مسلمان عجمی پر فضیلت اور ترجیح دینے والے

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا؛ سورۃ آل عمران

دین اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے؛سورۃ البقرۃ

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
جو شخص اپنا دین اسلام تبدیل کرے اسے قتل کر ڈالو،صحیح بخاری

یہود و نصاریٰ اور سوشلسٹوں کا ساتھ دینا اور مسلمانوں کے خلاف ان کا دست و بازو ہونا

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت
لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً
مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے اللہ کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں)؛ سورۃ آل عمران

وہ سو شلسٹ جو اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں یا وہ یہودی اور عیسائی جو نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے انہیں کافر نہ سمجھنا

جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کافر قرار دیتے ہو ئے ارشاد فرمایا ہے
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
جو لوگ کافر ہیں (یعنی) اہل کتاب اور مشرک وہ دوزخ کی آگ میں پڑیں گے (اور) ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں؛ سورة البينة

بعض صوفیوں کا عقیدہ وحد ۃ الوجود ہے وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس میں اللہ موجود نہ ہو

یہاں تک کے ان کا استاذ کہتا ہے
کتا ،خنزیر اور گرجاگھر میں بیٹھنے والا راہب ہمارے اللہ ہی تو ہیں
اور ان کا استاذ حلاج کہتا ہے میں خود اللہ ،اور اللہ میں ہوں،علمائے امت کا فیصلہ ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنے والے کو قتل کر دیا جائے ،پھر اسے قتل کر دیا گیا

اور یہ کہنا کہ دین کا معاملہ حکو مت سے علیحدہ ہے اور اسلام میں سیاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے
اس لئے کہ یہ تو قرآن کریم ،احادیث اور سیرت نبویہ کی تکذیب کے مترادف ہے

اور بعض صوفیاء کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض امور کی چابیاں قطبوں میں سے بعض اولیاء کرام کے سپرد کر دیں ہیں

لَّهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں؛ سورة الزمر

مندرجہ بالا یہ تمام باتیں ایسے ہی اسلام کو ختم کر دینے والی ہیں جیسے کچھ چیزیں وضو کو ختم کر دیتی ہیں
لہذا جب کوئی مسلمان شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ارتکاب کر لے تو اسے چاہیئے کہ اپنے مسلمان ہو نے کا دوبارہ اقرار کرے اسلام کو ختم کر دینے والے اس عمل کو ترک کر دے ،اللہ تعالیٰ سے اس فعل بد کی معافی مانگے اور توبہ کرے قبل اس کے کہ وہ مر جائے اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں جلتا رہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم یہ دعا کرتے رہیں
اے اللہ ہم تجھ سے پناہ چاہتے ہیں کہ ہم تیرے ساتھ جان بوجھ کر شرک کریں اور اس شرکیہ عمل کی بھی تجھ سے معافی چاہتے ہیں جو لا علمی میں کر بیٹھیں، رواہ احمد ،سند حسن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جو شخص کسی عراف یا کاہن کے پاس حاضر ہو اور جو کچھ اس نے کہا اس کی تصدیق کی تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی شریعت کا انکار کیا،مسند احمد ،یہ حدیث صحیح ہے
ستاروں کو دیکھ کر اٹکل پچو باتیں کرنے والا
نجومی
جنوں سے کچھ حالات معلوم کر کے لوگوں کو بتانے والا
کاہن
غیب کی خبریں دینے والا
عراف
جادوگر
ساحر
ہتھیلیاں دیکھ کر حالات بتانے والا
رملی
کپڑا پھینک کر لوگوں کے اندرونی معاملات کا کھوج لگانے والا
مندل

اور ان کے علاوہ ہر وہ شخص جو سینے کے بھیدوں،ماضی اور مستقبل میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کا علم رکھنے کا دعویدار ہو ان کی تصدیق کرنا حرام ہے
اس لئے کہ یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کے لئے مختص ہیں

فرمان باری تعالیٰ ہے
وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور وہ دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے؛سورۃ حدید

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے؛ سورۃ النمل

یہ دجال قسم کے لوگ جس شعبدہ بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کی بنیاد صرف اندازے ،اٹکل پچو اور گمان پر ہی قائم ہے اور ان میں اکثر تو شیطانی جھوٹ ہوتے ہیں جن سے صرف ناقص العقل اور بے وقوف قسم کے انسان ہی دھوکہ کھاتے ہیں
غور فرمائیں کہ اگر یہ لوگ واقعی غیب جانتے ہوتے توزمین کے سب خزانے نکال باہر نہ کرتے ؟پھر یہ لوگ فقیر،بھکاری، اور لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کے لئے طرح طرح کی حیلہ سازیوں سے کام نہ لیتے

اگر وہ سچے ہیں تو یہودیوں کی خطرناک سازیوں کو ختم کرنے کے معاملہ میں ہمیں ان کے اندرونی رازوں سے آگاہ کریں
اللہ کے علاہ کسی کی قسم مت کھائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اپنے باپوں کی قسمیں نہ اٹھایا کرو،جو شخص اللہ کی قسم اٹھائے ،سچی اٹھائے اور جس کے لئے اللہ کی قسم اٹھائی جائے اسے چاہیئے کہ وہ بھی راضی ہو جائے یاد رکھیں جو اللہ کے نام پر بھی راضی نہ ہوا اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ،ابن ماجہ بحوالہ صحیح الجامع

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اپنے والدین اور شریکوں کی قسمیں نہ اٹھایا کرو،قسم صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اٹھایا کرو اور ہر گز قسمیں نہ اٹھاؤ الاّ کہ تم سچے ہو ،ابو داؤد بحوالہ صحیح الجامع

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا،مسند احمد ،صحیح

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس شخص نے حاکم کے سامنے جھوٹی قسم صرف اس لئے اٹھائی کہ ایک مسلمان شخص کا مال حاصل کرے وہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہو ں گے،بخاری و مسلم

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس شخص کو کسی اہم کا م پر قسم اٹھا لینے کے بعد معلوم ہو ا کہ خیر اس کے علاوہ ہے تو اسے چاہیئے کہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور اس کار خیر کو کر گزرے،مسلم

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
قسم اٹھانے والے شخص کو چاہیئے کہ وہ ان شاء اللہ کہے پھر اگر چاہے تو اس قسم پر قائم رہے ،اگر چاہے تو بغیر کفارہ کے اسے چھوڑ دے،نسائی بحوالہ صحیح الجامع



|
 
Goto Top